ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہونے جا رہے تھے۔ کہ راستے میں ان کی نظر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی نظر ایک شخص پر پڑی، جو مسلسل روئے جا رہا تھا۔
حضرت علی شیر خدا نے اس بندے سے رونے کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ میں بہت ہی بڑا گناہ کر بیٹھا ہوں۔ مجھے اللہ تعالی کے عذاب سے ڈر لگتا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ میں کیا کروں۔
آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں میری معافی کی سفارش فرما دیں۔ حضرت علی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ اس شخص کو ساتھ لے کر حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش ہوئے۔
جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گئے۔ تو حضرت علی زار و قطار رو رہے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا اے علی آپ کیوں رو رہے ہو؟
حضرت علی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کے پاس آ ہی رہا تھا کہ راستے میں ایک شخص کو بہت ہی زیادہ روتا ہوے دیکھا۔
تو اس کی حالت دیکھ کر مجھے بھی رونا آگیا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا وہ شخص کہاں ہے؟ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ شخص باہر کھڑا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو اندر آنے کی اجازت دی۔ تو وہ بندہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہو کر اتنا رویا اتنا رویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بندے سے پوچھا اے نوجوان کیا ہوا ہے؟ تم اتنا کیوں رو رہے ہو؟
اس نے جواب دیا یارسول اللہ مجھ سے بہت ہی بڑا گناہ ہو گیا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے یہ بتاؤ کہ تیرا گناہ بڑا ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت بڑی ہے۔
اس بندے نے عرض کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا گناہ بڑا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا گناہ بڑا ہے کہ خدا کی قدرت بڑی۔ اس نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا گناہ بڑا ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تو نے شرک کا ارتکاب کیا ہے۔ بندے نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے شرک کا ارتکاب نہیں کیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو نے کسی بندے کو قتل کیا ہے۔
اس نے کہا کہ اے اللہ کے نبی میں نے کسی کو بھی قتل نہیں کیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم نے کون سا ایسا گناہ کیا ہے۔ جس کی وجہ سے تم اتنا زیادہ رو رہے ہو۔
پھر اس شخص نے اپنا سارا قصہ سنایا۔ اس نے کہا یارسول اللہ میں کئی سالوں سے کفن چوری کر رہا ہوں۔ میں مردوں کے کفن چوری کر کے ان کو فروخت کیا کرتا تھا۔ اس سے جو آمدنی ہوتی تھی اس سے اپنا پیٹ پالتا تھا۔
کہنے لگا کہ کچھ دن پہلے ایک لڑکی دفن کی گئی۔ میں نے اپنی عادت کے مطابق اس کا کفن اتارا اور وہاں سے جانے لگا۔ تو مجھ پر شیطان غالب آگیا۔ اس نے میری نیت بدل دی۔ میں نے اس لڑکی کے ساتھ زنا کیا۔ جب میں زنا کر کے اٹھنے لگا تو میں نے ایک آواز سنی کہ جیسے وہ لڑکی بول رہی ہے۔
اے بدبخت بندے تو نے مجھے مردوں کے درمیان ننگا کیا۔ تو کل قیامت کے دن بدکاروں اور زانیوں میں تیرا شمار ہوگا۔ اللہ تجھے بھی سب کے سامنے ننگا کرے گا۔ وہ شخص کہنے لگا کہ اس لڑکی کی آواز کا مجھ پر ایسا اثر ہوا ہے کہ مجھے اب اپنے آپ پر اللہ تعالی کا غضب محسوس ہوتا ہے۔ میں خدا کی پکڑ میں ہوں۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا سارا قصہ سنا۔ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی آنکھیں نم ہو گئیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے واقعی بہت ہی بڑا گناہ کیا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے جب یہ الفاظ نکلے کہ یہ بہت ہی بڑا گناہ ہے۔
تو وہ شخص روتا ہوا باہر نکل گیا اس نے سوچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بہت ہی ناراض ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زبان مبارکہ سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے جو میری بربادی کا مزید سبب بن جائے۔ وہاں سے نکل کر وہ شخص جنگل اور پہاڑوں کی طرف چلا گیا۔
وہ شخص کئی روز اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول رہا اور اللہ تعالی سے رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہا۔ اس کو ہر وقت وہ آواز سنائی دیتی تھی وہ ہر وقت اللہ تعالی سے دعائیں مانگتا رہا۔ وہ شخص کئی روز معافی مانگتا رہا تو خدا نے اس بندے کی توبہ قبول فرمائی۔ اللہ تعالی کے حکم سے حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے۔ اور سلام پیش کیا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ مخلوق کو پیدا کرنے والا، رزق دینے والا اور اپنی مخلوق کو معاف کرنے والا بھی میں ہی ہوں۔
تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ میں نے اس نوجوان کی توبہ قبول فرما لی ہے۔ میں نے اس کے سارے گناہوں کو معاف فرما دیا ہے۔
پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک صحابی کو اس شخص کے پاس بھیجا کہ اس شخص کے پاس جا کر اس کو یہ بتاؤ کہ اللہ تعالی نے تیری توبہ قبول فرمالی ہے۔ اللہ تعالی نے تیرے سب گناہوں کو معاف کر دیا ہے۔